مسودة:إمام غايب كا فايدة

من ویکي‌وحدت

حضرت امام حجت عجل الله فرجه الشریف کی بابرکت ہستی سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث آپ ع کی غيبت کے بارے میں ہے؛ بعض لوگوں کے ذھوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے كہ، امام زمانہ علیہ السلام کو لوگوں کی ہدایت، قیادت اور رہنمائی کے لئے انکے درمیاں ہونا چاہیے بھلا اس امام کا کیا فائدہ جو مخفیانہ اور لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل زندگی گزارے؟ جواب: سب سے پہلے یہ کی قرآني آيات اور روايات كي روشني ميں یہ معلوم ہوا کہ امام مھدی عج کی غیبت ایک ایسا امر ہے جو خداوند متعال کے ارادے اور تدبیر سے انجام پایا ہے ، اور اہل بیت اطہار علیہم السلام نےوقتاَ فوقتاَ ہر دور میں مرسل اعظم صلی اللہ علیہ والہ سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک امام زمانہ ع کی غیبت کے متعلق تفصیلی خبر دے چکے ہیں: ثانیا: اس قسم کی شبهات حجت خدا کی صحیح معرفت اور شناخت نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،جبکہ امام معصوم کے وجود کے أثرات اور فوائد انکے ظہور اور قیادت ظاہری تک محدود نہیں، قیادت اور ہدایت ظاہری انکے وجود مقد س کا سب سے ادنی فائدہ شمار ہوتا ہے. ہم یہاں فرامین معصومین علیهم السلام کی روشنی میں امام زمانہ ع کی وجود اقدس کے چند اہم فوائد مختصراً بیان کرتے ہیں ۔

مقدمه

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ سنکڑوں سال سے حجت خدا کے ظھور کی فیض اور انکی ہدایت سے محروم ہے اور بشر اس الہی رہبر کی ظاہری قیادت اور رہبری سے بے بہرہ ہے تو ایسے میں بسا اوقات مجھ جیسے ضعیف الایمان لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے یا دین ومذہب کے دشمن عناصر سوچھے سمجھے سازش کے تحت لوگوں کے ذہنوں میں ایسے شبہات ڈال دیتا ہے ۔ جبکہ حقیقت میں ایسے سوالات اور شبہات حجت خدا کی صحیح معرفت اور شناخت نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،جبکہ امام معصوم کے وجود کے أثرات اور فوائد انکے ظہور اور قیادت ظاہری تک محدود نہیں، قیادت اور ہدایت ظاہری انکے وجود مقد س کا سب سے ادنی فائدہ شمار ہوتا ہے. ہم یہاں فرامین معصومین علیهم السلام کی روشنی میں امام زمانہ ع کی وجود اقدس کے چند اہم فوائد مختصراً بیان کرتے ہیں ۔


زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی

متعدد روایات کے مطابق جسے شیعہ سنی دونوں طرفیں کے علماء نے نقل کی ہیں، زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی خواہ وہ لوگوں کے درمیاں ظاہر ہو یا خوف کی وجہ سے پوشیدہ ہو، چنانچہ امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں : بَلَى لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَ إِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَ بَيِّنَاتُه خدا کی قسم زمین کبھی ایسے خدا کی راہ میں قیام کرنے والے حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی، چاہیے وہ لوگوں کے ساتھ اور أشکار ہو یا خوف کی وجہ سے مخفی ہو تاکہ لوگوں کے اوپر خدا کی حجتیں اور براہیں تمام نہ ہو نے پائیں [١]. اسی طرح امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا : سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَقُلْتُ أَتَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ حُجَّةٍ فَقَالَ لَوْ خَلَتْ مِنْ حُجَّةٍ طَرْفَةَ عَيْنٍ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا.[٢]. کیا یہ ممکن ہے زمین حجت خدا سے خالی رہ جائے؟ فرمایا اگر پلک جمانے کی حد تک زمیں خالی ہو جائے تو اہل زمین کے ہمراہ برباد ہو جائے گی.

کسی دوسری روایت میں امام صادق آل محمد فرماتے ہیں: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع يَمْضِي الْإِمَامُ وَ لَيْسَ لَهُ عَقِبٌ قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ قُلْتُ فَيَكُونُ مَا ذَا قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى خَلْقِهِ فَيُعَاجِلَهُم‏.[٣].کیا یہ ممکن ہے ایک امام اس دنیا سے رخصت ہو جائے جبکہ اسکے پیچھے کوئی امام نہ ہو؟ فرمایا ایسا ممکن نہیں ہے، میں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا :ایسے میں اللہ کا غضب مخلوقات پر نازل ہو جائے گا. کسی اور روایت میں آپ فرماتے ہیں : أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ أَنْ يَكُونَ فِيهَا حُجَّةٌ عَالِمٌ إِنَّ الْأَرْضَ لَا يُصْلِحُهَا إِلَّا ذَلِكَ وَ لَا يُصْلِحُ النَّاسَ إِلَّا ذَلِكَ.[٤]. اگر زمین ایک لحظے کے لیے امام زمان سے (جو کہ حجت خدا ہے)خالی رہ جاے تو برباد ہو جاے گی ۔

امام زمانہ علیہ السلام واسطه فیض ہیں

دینی تعلیمات کی روشنی میں عقلی اور نقلی دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حجت خدا کائنات کے تمام مخلوقات اور خدا کے درمیان واسطہ فیض ہوتی ہے نظام کائنات میں محور اور مرکز کی حیثیت رکھتی ہے لھذا ھر دور میں حجت خدا کا رؤے زمیں پر تا صبح قیامت باقی رہنا ضروری ہے ورنہ زمین اپنی اھل سمیٹ ٹوٹ کر فنا ہو جائے گی انسان، جنّات، ملائکہ ،حیوانات اور جمادات کا نام نشان مٹ جائے گا چنانچہ پیغمبر اکرم صلی فرماتے ہیں: النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِي ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ* [٥]. ستارے اهل آسمان کے لیے باعث نجات ہیں چنانچه اگر ستارے چلے جائے تو آسمان والے بهی ختم هو جائینگے، میرا اهل بیت زمین والون کے لیے ذریعه نجات ہیں چنانچہ اهل بیت سے زمین خالی رہ جائے تو اهل زمین بوس هو جائین گئے. اسی طرح حضرت ابوزر غفاری حضور پاک صل اللہ علیہ والہ سے نقل کرتا آپنے فرمایا:... وَ بِنَا يُسْتَجَابُ‏ الدُّعَاءُ وَ يُدْفَعُ‏ الْبَلَاءُ وَ بِنَا يُنْزَلُ‏ الْغَيْثُ‏ مِنَ‏ السَّمَاءِ ... [٦].

امام زمانہ برکت سے دعائیں قبول ہوتي ہیں

اسی طرح متقی ھندی مالک بن انس کے واسطے کسی دوسرے روایت میں آنحضرت صل سے نقل کرتا ہے آپنے ۖ فرمایا : لن یزال ھذا الدین قائماً الی اثنی عشر من قریش ،فاذا ہلکو ماجت الأرض [٧].یہ دین قائم دائم رہے گا جب تک بارہ قریشی لوگوں کے درمیان ہونگے اور جب یہ سب فوت کر جاے تو زمین بھی اپنے اھل کے ساتھ دب جاے گی. اسی طرح امیر المومنین علی اور انکے فرزند امام علي ابن حسین علیھما السلام دونوں سے یہ روایت نقل ہوئی ہے فرماتے ہیں : وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِي الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا [٨][٩] هماری برکت سے زمین اپنی اهل کے همراه پابرجا هے اور همارے وسیلے آسمان بارش برساتا هے، اسکی رحمتین پهیل جاتی هین اور زمین سے برکات نکل آتی ہیں.


پس ان روایات سے یه معلوم ہو تا ہے کہ زمین اور اھل زمین کی بقا حجت خدا کے وجود کے ساتھ مربوط ہے اور اسی کی برکت سے باقی ہے ۔ چنانچہ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں : اے خداے قادر کی حجتیں ، خدا نے آپسے آغاز وانجام کیا ہے وہ آپ کے ذریعے بارش برساتا ہے آپ کے ذریعے آسماں کو روکے ہوے ہے تاکہ زمین پر نہ آگرے مگر اسکے حکم سے ، وہ آپ کے ذریعے غم دور کرتا ہے اور سختی ہٹاتا ہے ۔ پس امام حجت عجل اللہ فرجہ غیبت کی حالت میں بھی تمام مخلوقات کے لیے سر چسمہ حیات ہیں۔ اور تمام برکات الھی انہی کے واسطے مخلوقات تک پہنچتی ہے* اسی لیے خود پیغمبر اکرم نے انکے وجود مقدس کو غیبت کی حالت میں اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چھپا ہوا ہے لیکن اسکے وجود سے مخلوقا ت مسلسل استفادہ لے رہا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ جابر الانصاری پیغمبر گرامی اسلام ۖسے نقل کرتے ہیں : يا رسول اللّه هل لشيعته انتفاع‏ به في غيبته؟ فقال صلّى اللّه عليه و آله: إي والذي بعثني بالحقّ إنّهم يستضيئون بنوره و ينتفعون بولايته في غيبته كانتفاع‏ الناس بالشمس و إن علاها السحاب [١٠][١١].اس ذات اقدس کی قسم جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا هے وه لوگ انکے نورانی وجود سے منور اور انکی ولایت سے زمان غیبت مین ایسے هی استفاده کریں گے جس طرح لوگ بادل کے پیچھے چھپے هوے سورج سے استفاده کرتے ہیں ـ

امام زمانہ کی غیبت ظاہری کی ذمہ دار ہم خود ہیں

اگر آج امت محمدی اس الھی رہبر کے حضور کی فیض سے محروم ہیں تو اسکی ذمہ دار امام علیہ السلام نہیں بلکہ ہم ہیں، آپ کی قیادت اور رہبری قبول کرنے کی آمادگی ہم میں نہیں ہے، عملی میدان میں انکی مخالفت پر کمر بستہ ہیں* جس طرح آپ کے أباء واجداد ائمہ طاہرین کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر آمادہ ہوتے تو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ ظاہر ہوتے کبھی غیبت کی نوبت نہیں آتی چنانچہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود امام زمانہ علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ وَ لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمْ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ‏ عَلَى اجْتِمَاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ بِمُشَاهَدَتِنَا عَلَى حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهَا مِنْهُمْ بِنَا فَمَا يَحْبِسُنَا عَنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نَكْرَهُهُ وَ لَا نُؤْثِرُهُ مِنْهُمْ‏ [١٢].اگر ہمارے پیروی کرنے والے_ خدا انھیں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے _ ہمارے عہد کے ساتھ وفا کرنے میں متحد ہوتے تو نہ صرف ہماری ملاقات سے بے بہرہ ہوتے بلکہ ہماری ظہور کی سعادت سے بے نصیب نہیں ہوتے ہمارے ظہور کے لیے کوئی چیز سوائے انکے برے اعمال کے مانع نہیں بنتی کہ جسکے ہم انسے توقع نہیں رکھتے ہیں.


لہذا اس عظیم نعمت سے بے بہرگی اور آفتاب ہدایت کے شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ ہم اور ہمارے ہی برے اعمال ہیں تو ہمیں حجت خدا کی غیبت پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ انسان کامل کے حضور کی راہ کی رکاوٹیں دور ہو جائے اور ظہور عدل الھی کا زمینہ فراہم ہوجائے. اگر کوئی شخص اس دنیا کے دیگر نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دے یا اسے غلط استعمال کرے تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں ہو سکتا کہ انھیں کیوں خلق کیا گیا؟ کسی کو یہ حق نہیں ملتا کہ یہ کہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے درست استفادہ نہیں کرر ہیں تو ان نعمتوں کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے بلکہ لوگوں کی توبیخ کرنا چاہے کہ کیوں ان نعمتوں سے صحیح استفادہ نہیں کررہے اور ان مین یه صلاحیت پیدا کرنی چاہے تاکہ ان نعمتوں سے بهر پور استفادہ کرسکے ۔

حوالہ جات

قالب:حوالہ جات زمرہ: اسلامی اصطلاحات زمرہ: شبهات وردود

  1. سید رضی؛ نہج البلاغہ خ ١٤٧
  2. ابن بابويه، محمد بن على، كمال الدين و تمام النعمة، ج1، ص81.
  3. ابن بابويه، محمد بن على، كمال الدين و تمام النعمة، ج1، ص201.
  4. ابن بابويه، محمد بن على، كمال الدين و تمام النعمة، ج1، ص201.
  5. قمي، على بن ابراهيم‏، تفسير قمي، ج2، ص88.
  6. مجلسي، محمد باقر، بحار الأنوار ج‏27 ؛ ص198
  7. هندی، علی المتقی، کنز العمال ج۱۲، ص۳۴، ح۳۳۸۶۱.
  8. ابن بابويه، كمال الدين و تمام النعمة، ج‏1، ص207.
  9. البضاعة المزجاة، ج1، ص545
  10. إلزام الناصب، ج‏1، ص385- 380
  11. قندوزی حنفی ینابیع المودة، ج٣، ص ١٧.
  12. الإحتجاج على أهل اللجاج للطبرسي، ج‏2، ص499 - 479